* تھا مستعار حُسن کے اس کے جو نور تھا *
غزل
٭……میر تقی میرؔ
تھا مستعار حُسن کے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شعورِ نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا
مجلس میں رات اک تیری پرتوِ بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اس شوخ کو بھی راہ پر لانا ضرور تھا
منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات کٹی جو کہ عُور تھا
کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پُر غرور تھا
تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
|