* کیا کہوں تم سے مَیں کہ کیا ہے عشق *
غزل
٭……میر تقی میر
کیا کہوں تم سے مَیں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق معشوق، عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
عشق ہے طرز و طورِ عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق و مدعا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا!
تو کہے جنسِ ناروا ہے عشق
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
|