* کوفت سے جان لب پر آئی ہے *
غزل
٭……میر تقی میر
کوفت سے جان لب پر آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے
لکھتے رقعہ لکھ گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
ہے تصنّع کہ لعل میں وہ لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے
دل سے نزدیک اور اتنا دور
کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے
جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے
یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
وہاں وہی نازِ خود نمائی ہے
مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ
کیا دِوانے نے موت پائی ہے
|