* دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے *
غزل
٭……میر تقی میر
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبحِ یاں سے اُٹھتا ہے
خانہ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشم شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اُٹھتا ہے
بیٹھے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے
عشقِ میرؔ ایک بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
|