* فقیرانہ آئے صدا کر چلے *
غزل
٭……میر تقی میر
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
کوئی نا اُمیدا نہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپاکر چلے
بہت آروز تھی گلی کی تری!
سو یاں سے لہو میں نہاکر چلے
دکھائی دئیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جُدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
|