* آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا *
غزل
٭……میر تقی میر
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخمِ خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا
یہ نشانِ عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز
میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا
**** |