* زندگی ایک اذیّت ہے مجھے *
زندگی ایک اذیّت ہے مجھے
تجھ سے ملنے ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک ہی خیال
تجھ سع کس درجہ محبت ہے مجھے
تری صورت ، تری زلفین ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے
مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات
زیست اب سے تیری چاہت ہے مجھے
تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے
سانس جو بیت گیا ، بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے
اب نہیں دل میں میرے شوقِ وصال
اب ہر اک چیز سے فراغت ہے مجھے
اب نہ وہ جوشِ تمنا باقی ہے
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے
اب یوں ہی عمر گزر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے
|