* چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے *
چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیقِ آشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
میرے دیئوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تیری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مورخ نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے
|