غزل
ضمیر جس کا تابِندہ نہیں رہتا
وہ غلطی پہ شرمندہ نہیں رہتا
جس کی جڑیں ہو جائیں کھوکھلی
اُس شجر پہ کوئی پرندہ نہیں رہتا
جس پر پڑیں تیری خنجر سی آنکھیں
وہ شخص بیچارہ زندہ نہیں رہتا
اِتنا خطرناک ہو چکا ہے آدمی
کہ اب تو خوفِ درندہ نہیں رہتا
ہزار چارہ کرو مگر مریضِ عشق امر
زیادہ دِنوں تک زندہ نہیں رہتا
میاں امر