غزل
تم چلے گئے تو ویران بھی ہو سکتا ہے
یہ دل کا شہر بیابان بھی ہو سکتا ہے
یہ جو چل پڑی ہے نفرت کی تیز آندھی
فصلِ محبت کو نقصان بھی ہو سکتا ہے
قدم پھونک پھونک کر رکھا کرو دوستو
کوئی ذَرہ صاحبِ جان بھی ہو سکتا ہے
خلوص بانٹنے آیا ہوں بھر لو دامن
ورنہ کل اِس کا فقدان بھی ہو سکتا ہے
ساقی پہ بھروسہ نہ کیا کرو اے رِندو
جام میں زہر کا امکان بھی ہو سکتا ہے
ساحل کے قریب کیسے ڈوب گئی کشتی
یہ ناخدا کا فرمان بھی ہو سکتا ہے
میرے پاس کچھ نہیں گناہوں کے سِوا
کل فرشتہء اَجل مہمان بھی ہو سکتا ہے
شیشے کے محل میں بسنے والا امر
پتھروں سے لہولہان بھی ہو سکتا ہے
میاں امر