غزل
اگر پردہ نشیں جلوہ نُما ہو جائے
ظلمتِ شب میں ضیاء ہی ضیاء ہو جائے
یوں بَن سنور کے نہ نکلا کرو گھر سے
ممکن ہے فرشتوں سے بھی خطا ہو جائے
ہر اک ہاتھ میں نظر آتے ہیں سنگ
جنونِ عشق کی جب اِنتہا ہو جائے
منا لینا چاہیے روٹھا ہُوا یار
اِس سے پہلے کہ زندگی خفا ہو جائے
یوں ٹُوٹ کے چاہو امرؔ نہ پوجو اُسے
کہیں ایسا نہ ہو وہ خدا ہو جائے
میاں امرؔ