* آگ پوری کہاں بجھی ہے ابھی *
آگ پوری کہاں بجھی ہے ابھی
دیدئہ تر میں تشنگی ہے ابھی
دوستوں سے چکا رہا ہوں حساب
دشمنوں سے کہاں ٹھنی ہے ابھی
دوست کہہ کر مجھے نہ دے گالی
دل پہ اک زخمِ دوستی ہے ابھی
کاٹ دے یہ بھی خود پرستی میں
اور تھوڑی سی زندگی ہے ابھی
جانے کیوں کند ہو گیا نشتر
زخم کی دھار تو وہی ہے ابھی
|