* عشق مجھ کو نہ سہی وحشت ہی سہی *
غزل
٭……اسد اللہ خاں غالب
عشق مجھ کو نہ سہی وحشت ہی سہی
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رُسوائی؟
اے وہ مجلس نہیں، خِلوتِ ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برقِ خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
|