* ٹوٹے تیری نگہہ سے اگر دل حباب کا *
غزل
٭……مرزا محمد رفیع سودؔ
ٹوٹے تیری نگہہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی پھر پئیں تو مزا ہے شراب کا
دوزخ مجھے قبول ہے اے منکر و نکیر
لیکن نہیں دماغ سوال و جواب کا
تھا کِس کے دل کو کشمکشِ عشق کا دماغ
یارب برا ہو دیدۂ خانہ خراب کا
زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزا ہے شراب و کباب کا
غافل غضب سے ہو کے کرم پر نہ رکھ نظر
پُر ہے شرارِ برق سے دامن سحاب کا
قطرہ گرا تھا چوکے میرے اشکِ گرم سے
دریا میں ہے ہنوز پھپھولا حباب کا
سوداؔ نگاہِ دیدۂ تحقیق کے حضور
حلوہ ہر ایک ذرّے میں ہے آفتاب کا |