* آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا *
غزل
٭………مرزا محمد رفیع سودؔا
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا
سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متصل بنا
جب تیشہ کوہکن نے لیا ہاتھ، تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا
جس تیرگی سے روز ہے عشاق کا سیاہ
شاید اُسی سے چہرۂ خوباں پہ تِل بنا
لب زندگی میں کب ملے اُ س لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو متھ کرکے گِل بنا
اپنا ہنر دکھادیں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دل بنا
سن سن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سوداؔ نہ باتیں بیٹھ کے یاں متصل بنا
|