* دل میں ہر روز سلگتی ہے اسی عزم کی لو *
دل میں ہر روز سلگتی ہے اسی عزم کی لو
جس کی تکمیل میری روح کا ویرانہ ہے
تجھ کو ہر روز بھلانے کی سعی کرتا ہوں
اور ہر روز یہی سوچ کے رہ جاتا ہوں
کس طرح خود سے کروں تیرے تصور کو جدا
میری ہر سانس میں اس طرح سے آباد ہے تو
جیسے پھولوں میں مہک جیسے گلستاں میں صبا
تجھ سے باتیں نہ سہی تجھ سے قرابت نہ سہی
تیرے جلوے نہ سہی تیری عنایت نہ سہی
میرے جینے کا سہارا میرے لمحوں کا گزر
سوچتا ہوں کہ تیری یاد بھی گر روٹھ گئی
یا کبھی چھین لی حالات کے اندھیاروں نے
نہ تیری یاد خوشبو نہ تصور کی مہک
وہ گھڑی زیست میں شاید ہو فنا کا لمحہ
|