* تھی جسم و جاں پہ چھا گئی *
تھی جسم و جاں پہ چھا گئی
وہ خواب تھا کہ زندگی
مجھے تری خلش تو ہے
مگر صنم کبھی کبھی
کہ گونجتی ہے کان میں
وہ سُر وہ تیری نغمگی
کہ گل بھی مانگتے پھرے
تجھ ہی سے اپنی تازگی
کبھی ملو تو اس طرح
کہ دور بھی ہو پاس بھی
ہاں دل لگی کا نام ہے
شکستگی ، شکستگی
بڑے گلے ہیں آپ سے
ہے بے پناہ پیار بھی
مریضِ ہجرِ یار ہے
وہ چاند ہو کہ چاندنی
یہ معجزہ فراق کا
جو لکھ دیا وہ شاعری
|