* میرا غم میرا ہی غم ہے کیسے میں واضح *
مختار ٹونکی
کہمن
بختاروری
منظر:
میرا غم میرا ہی غم ہے کیسے میں واضح کروں
دل سے جو پیاری تھی مجھ کو اس میں نے کھو دیا
کھل گیا اس کانصیبہ، میری قسمت کھو گئی
میں غریبِ شہر تھا، دیتا بھی کیا اس کو بھلا
عیش ایسی چیز ہے جو پیار دے سکتا نہیں
کار، کوٹھی اور بنگلہ اس کو قسمت میں ملا
لکھ پتی کے ساتھ میں کل اس کی شادی ہو گئی
دیکھتے ہی دیکھتے بس پیار میرا لٹ گیا
کہمن:
جتنی قدریں تھیں پرانی دیکھو ساری مٹ گئیں
ان دنوں نظم جہاں کا طور ہی کچھ اور ہے
دولتیں جس کو ہیں حاصل سرخ رو ہوتا ہے وہ
روپیہ سب سے بڑا ہے ہائے کیسا دور ہے
٭٭٭
|