* میں جو پہنچا بزم میں تو پڑھ رہا تھا *
مختار ٹونکی
کہمن
سرقہ
منظر:
میں جو پہنچا بزم میں تو پڑھ رہا تھا وہ غزل
داد اس کو مل رہی تھی، داد سے سرشار تھا
خوب تھا اس کا ترنم خوب ہی اشعار تھے
شاعروں کی صف میں گویا چل رہی تلوار تھا
پڑ گئی مجھ پر نظر تو ہکّا بکّا رہ گیا
اس کا چہرہ بے گماں نا قابلِ اظہار تھا
پڑھ رہا تھا جو غزل وہ تو ہماری تھی مگر
کیا کریں یارو تخلّص اس کا بھی مختار تھا
کہمن:
ایرے غیرے بھی سخن گوئی کا دم بھرنے لگے
شاعری چار ا سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے
آج کل تو ایسے لوگوں کی بہت بھرما ر ہے
علم تو سیکھا نہیں اور شاعری کرنے لگے
٭٭٭
|