* وارے نیارے کر رہا تھا، تھی مزے کی ز *
مختار ٹونکی
کہمن
شاخسانہ
منظر:
وارے نیارے کر رہا تھا، تھی مزے کی زندگی
سب محلے کی نظر میں خوب دولت مند تھا
دیکھ کر اس کی امارت رشک کرتے تھے سبھی
نام تھا ویسے کرامت وقت کا فرزند تھا
گرچہ معمولی سا بابو تھا وہ دفتر میں مگر
رشوتیں لیتا رہا تھا کیوںکہ دانشمند تھا
ایک دن پکڑا گیا، جب وقت کی ٹھوکر لگی
بن گیا زہر اب سارا جو کہ اس کو قند تھا
کہمن:
کیوں بدی کی راہ پر تو گامزن ہے اے بشر
دیکھ لینا جیتے جی بے موت ہی مر جائے گا
چھوڑ دے جرم و گناہ زندگی کی دوڑ میں
پاپ کا تیرا گھڑا ورنہ کبھی بھر جائے گا
٭٭٭
|