* وہ اک چہرہ مرے خوابوں کی جو تعبیر ا *
غزل
وہ اک چہرہ مرے خوابوں کی جو تعبیر اب بھی ہے
جدائی اُس کی جانے کیوں مری تقدیر اب بھی ہے
زمانہ ہوگیا اُس نے لکھا تھا خط مجھے لیکن
تعجب ہے معطر اُس کی وہ تحریر اب بھی ہے
تمہیں پاکیزگی یارو ملے گی بس وہیں سن لو
حیا کی جس کے قدموں میں پڑی زنجیر اب بھی ہے
بھلا ڈالا مجھے تونے سراسر جھوٹ ہے کیونکہ
’’ترے کمرے میں آویزاں مری تصویر اب بھی ہے‘‘
ملے جو زخم غیروں سے ہوئے وہ مندمل لیکن
جگر کے پار اپنوں کا ہی میرے تیر اب بھی ہے
مرے بھائی ہیں اعلیٰ ظرف حصہ بھی نہیں لیتے
پدر کی ذمہ داری سب مری جاگیر اب بھی ہے
خلافِ ظلم ہاتھوں میں ہر اہلِ علم کے راہی
قلم شمشیر کل بھی تھا قلم شمشیر اب بھی ہے
منور عالم راہی
Rajdhani Tailor, Nadvi Market
Laheria Sarai, Darbhanga (Bihar)
Mob: 9934938380
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|