* شب کی آغوش میں لپٹا ہُوا افلاک میں *
شب کی آغوش میں لپٹا ہُوا افلاک میں گُم
جیسے مجذوب ہو اللہ کے ادراک میں گُم
چشم _ موسی نہ سہی پھر بھی تجلی چاہے
دل _ بے تاب پڑا اب بھی کسی خاک میں گُم
وہ تو پردے سے نکل کر بھی رہا پردے میں
اور میرا عشق تہی دست ھے پیچاک میں گُم
اِک قیامت ھے کہ منڈلانے لگی ھے سر پر
میں نے دیکھا ھے بشر نالہءِ بیباک میں گُم
عشق میں ہونا ھے اب مثل_ اویس_ قرنی
وصل کی رات کو رکھ دیدہ ءِ نمناک میں گُم
روح محتاج_ کفن لگتی ھے مجھ کو اکرام
جسم لیکن ھے ابھی زینت_ پوشاک میں گُم
محمد اکرام قاسمی
|