* ہجر سے یا وصل کی زنجیر سے باندھا گی *
ہجر سے یا وصل کی زنجیر سے باندھا گیا
دشت_اُلفت میں مجھے تاخیر سے باندھا گیا
رقص کرتا پھِر رہا ھے آہٹوں کا اِک ہجوم
پھر دل_بسمل تری تصویر سے باندھا گیا
تیری محفل میں وہی مارا گیا ساقی مرے
جس کو چشم_ شوخ کی تحریر سے باندھا گیا
اِس پشیمانی سے دریاوں کا پانی مَر گیا
جب لب_ معصوم کو اِک تیر سے باندھا گیا
پہلے بھی کب اپنی مرضی سے اُڑا ،جو اب کے بھی
چھان کر سانسیں مری زنجیر سے باندھا گیا
****** |