|
* احساس ریگ جاں میں یہ سراب کا تعقب *
احساس ریگ جاں میں یہ سراب کا تعقب
کب تک کروگے آخر اک خواب کا تعقب
ہمیں دے رہا ہے دھوکہ یہ حباب کا تعقب
ابھی عمر کر رہی ہے, جو شباب کا تعقب
دکھلایں جانے کیا کیا, یہ تقاضے مصلحت کے
خورشید کی طبیعت , مہتاب کا تعقب
یہ کرشمہ بھی ہے ممکن, جو بلند ہوں ارادے
کرتی ہیں کشتیاں بھی گرداب کا تعقب
یہ جنوں کی آزمائش, یہ ہے وحشتوں کی سازش
مجھے مار ہی نہ ڈالے یہ عذاب کا تعقب
کبھی ذہن در بہ در ہے, کبھی منتشر طبیعت
میرا اضطراب_ پیہم, سیماب کا تعقب
کبھی کوئی پل سکوں کا نہ ہوا نصیب مجھ کو
میری زندگی مسلسل سیلاب کا تعقب
تجھے توڑ دیگا آخر یہ تیرا جنون_ بے جا
'ممتاز ' ترک کر دے نایاب کا تعققب
***************** |
|