|
* نہ صحرا میں بھٹکے , نہ ساگر کھنگال® *
نہ صحرا میں بھٹکے , نہ ساگر کھنگالے
کہاں تک کوئی آرزو کو سمبھالے
ابھی مصلحت کی صدا رایگاں ہے
ابھی تو خرد ہے جنوں کے حوالے
تخیل پ ہے تیرہ بختی کا پہرہ
زباں پر لگے ہیں خموشی کے تالے
اب اس کے لئے اس کو تکلیف کیا دیں
چلو خود ہی ہم پھوڑ لیں دل کے چھالے
نثار اس جنوں کے , کے دیوانگی میں
مقدر کے ہم نے کی بل نکالے
جنوں سے کہو , تول لے اپنی ہستی
ارادے سے کہ دو کہ پر آزما لے
تمہیں نقطہچینو, دکھاینگے ہم بھی
ظفریاب ہونگے سے کرنے والے
بڑی دیر سے منتظر ہیں امیدیں
مقدر تمنا کو وعدوں پ ٹالے
شفق نے عروسی قبا زیب تن کی
گلے مل رہے ہیں اندھیرے اجالے
پھراے خرد کو نہ جانے کہاں تک
تصور کے 'ممتاز ' ہیں ڈھب نرالے
************** |
|