|
* کارگاہ یوم نو کا کھل رہا ہے پہلا با *
کارگاہ یوم نو کا کھل رہا ہے پہلا باب
صبح کی پیشانی پ چنتا ہے افشاں آفتاب
جاگ اٹھی ہے , لیتی ہے انگڑایاں صبح خرام
اپنے اپنے کام پر سب چل دئے ہیں خاص و عام
اپنی اپنی فکر و فن میں حوصلے محلول ہیں
بوڑھے , بچے، مرد و زن , سب کام میں مشغول ہیں
اک طرف ماضی کا غم ہے , اک طرف ہے جشن حال
مر گیا اک سال اور پیدا ہوا ہے ایک سال
چل پڑی پھر زندگی , رنگیں ردا اوڑھے ہوئے
کامرانی کی سریلی سی صدا اوڑھے ہوئے
آرزوؤں کے لبوں پر پھر تبسم کھل اٹھا
جاگ اٹھا , انگڑایاں لے کر کے مستقبل اٹھا
حسرتیں مچلی ہیں , پھر سب کے لبوں پر ہے دوا
کاش ! اب کے سال سچ ہو جاے سب سوچا ہوا
میں بھی کرتی ہوں دیں , دوستوں کے واسطے
یا خدا , ہموار کر دے ہر کسی کے راستے
ہر کسی کو دے خوشی , ہر ایک کی حسرت نکال
لے کے رحمت کا خزانہ , آے نو مولود سال
|
|