* میری حسرت بھری زندگی کھو گئی *
میری حسرت بھری زندگی کھو گئی
گردشِ وقت تیری عنایات سے
دیکھتے دیکھتے ہر خوشی کھو گئی
جب سے تہذیبِ نَو کا چلاسلسلہ
دوستو! عظمتِ آدمی کھو گئی
دور کرتی تھی جو دل کی تاریکیاں
آج وہ علم کی روشنی کھو گئی
بجھنے پایی نہ تھی میری تشنہ لبی
ساقیا! تیری دریا دلی کھو گئی
بےخودی ایسی دل پہ مسلط ہوئی
ہوش گم ہوگیا اور خودی کھو گئی
ٹھنڈی ہوتی تھیں آنکھیں جسے دیکھ کر
صحنِ گلشن کی وہ دل کشی کھو گئی
رشک کرتے تھے جس پر فرشتے کبھی
ابنِ آدم کی وہ سادگی کھو گئی
غم نے پامال کچھ اس طرح سے کیا
لب بھی خاموش ہے نغمگی کھو گئی
**** |