* دوستی کی آڑ میں کارِ عدوٗ کرتے رہو *
دوستی کی آڑ میں کارِ عدوٗ کرتے رہو
بے سبب بدنام مجھ کو چارسوٗ کرتے رہو
آگئے ہو جب تصور میں ذرا کچھ دیر اور
مسکرا کر یوں ہی مجھ سے گفتگوٗ کرتے رہو
صورتِ آئینہ ہے کردار میرا آج بھی
غم نہیں اک اک سے تم میر ی ہجو کرتے رہو
اک نہ اک دن آہی جائے گا ہر اک گل پر نکھار
دوستو! نذرِ چمن اپنا لہو کرتے رہو
ہے اگر پی کر بہک جانے کا تم کو احتمال
دور سے نظّارۂ جام و سبو کرتے رہو
کام آکر دوسروں کے وقت ہر اے دوستو!
خود کو دنیا کی نظر میں سرخرو کرتے رہو
یہ بھی کوئی زندگی ہے بیٹھ کر آٹھوں پہر
توڑ کر دنیا سے رشتہ ذکرِہوٗ کرتے رہو
یہ تو کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے کہ تم
مسکرا کر روز قتلِ آرزوٗ کرتے رہو
دے کے پیغامِ عمل سب کو مُشاہدؔ صبح و شام
ہر بشر کے دل میں پیدا نیک خوٗ کرتے رہو
**** |