* دل کو رسوائی کا احساس کہاں ہوتا ہے *
غزل
دل کو رسوائی کا احساس کہاں ہوتا ہے
بے نیازِ غم ہر سود و زیاں ہوتا ہے
جو ترے نام سے کرتا ہے ادب کی تعمیر
اس کا کچھ اور ہی انداز بیاں ہوتا ہے
اب بھی پہلے کی طرح برپا ہے ہر سو محشر
دیکیے دہر میں کب امن و اماں ہوتا ہے
واقعی اب تو ہے اے دوست یہ حالت اپنی
دل پہ احساس محبت بھی گراں ہوتا ہے
میری آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں اس وقت ندیم
جب شب غم میں کوئی نالہ کناں ہوتا ہے
موت کرتی ہے نئی زیست کا آکر آغاز
ختم کب سلسلۂ عمر رواں ہوتا ہے
وہ الٹ دیتے ہیں جب بھی رخ تاباں سے نقاب
شب تاریک میں بھی دن کا گماں ہوتا ہے
یہ بھی تیری نگہِ ناز کا نیرنگ نہ ہو
چوٹ لگتی کہاں درد کہاں ہوتا ہے
اِس سے ناکامیِ الفت کی جھلک ہے ظاہر
رنج جو آپ کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے
**** |