* اے زندگی بتا یہ خلا کیسے ہوگیا *
غزل
اے زندگی بتا یہ خلا کیسے ہوگیا
سایہ بھی میرا مجھ سے جدا کیسے ہوگیا
دل بھی وہی ، زباں بھی وہی ، مدعا وہی
خالی اثر سے حرفِ دعا کیسے ہوگیا
ہر روز قتل کرتا ہوں خود اپنی خواہشیں
میں اتنا سنگ دل تو نہ تھا کیسے ہوگیا
سوکھے ہوئے گلاب میں پھر جان پڑگئی
ہر زخم میرے دل کا ہرا کیسے ہوگیا
یوں لگ رہا ہے جیسے شناسا نہیں کوئی
ہر چہرہ اجنبی سا بھلا کیسے ہوگیا
خاموشیاں ہیں رقص میں ہر فرد ہے اداس
گلزارِ شہر دشتِ بلا کیسے ہوگیا
جوہر نوازشات ہیں اُس کی تو انگنت
چند آنسوئوں سے قرض ادا کیسے ہوگیا
مشتاق جوہر
1/2, 111/5, J.K.Ghosh Road, Belgachia
Kolkata-700037
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|