* تری ہچکی بندھی تھی ، یاد ہے کیا *
تری ہچکی بندھی تھی ، یاد ہے کیا
کوئی لڑکی ہنسی تھی ، یاد ہے کیا
تو کالج کے احاطے میں کھڑا تھا
میں جب تجھ سے ملی تھی ، یاد ہے کیا
لگا تھا ہر طرف آنکھوں کا میلہ
میں تجھ میں کھو گئی تھی ، یاد ہے کیا
اشاروں سے مجھے تو نے چھوا تھا
وہ شب ، شب بھر جلی تھی ، یاد ہے کیا
وہ کاغذ کا بنا ایک پھول جس میں
مری خوشبو بسی تھی ، یاد ہے کیا
کبھی ہم کو جدا کرنے کی خاطر
وہ اک آندھی اٹھی تھی ، یاد ہے کیا
ہوا پر لکھ رہا تھا نام میرا
تری انگلی جلی تھی ، یاد ہے کیا
وہی جو اب ہے تیرے دوستوں میں
مری پکی سکھی تھی ، یاد ہے کیا
ترے ملنے سے پہلے کیا تھی نغمہؔ
ادھوری سی ہنسی تھی ، یاد ہے کیا
************************* |