* کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مس *
کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مسکائے
کبھی ٹھہروں تو پتھریلی زمیں کی آنکھ بھرآئے
کبھی خود کو پڑھوں تو چاند کے لب تھرتھرا جائیں
کبھی کچھ یوں لکھوں کہ آسماں کا دل پگھل جائے
کبھی ٹھنڈی ہوائیں آکے کھیلیں میرے گیسو سے
کبھی خوشبو مری زلفوں میں آکر قید ہوجائے
کبھی ساون بجھائے پیاس اپنی میرے اشکوں سے
کبھی دریا مری آنکھوں میں اُترے اور شرمائے
کبھی یوں ہو کہ پتھر کو میں قطرہ قطرہ پی جائوں
کبھی یوں ہو شرارہ مجھ کو چھوتے ہی پگھل جائے
کبھی رنگین بارش سرخ کردے اوڑھنی میری
کبھی قوسِ قزح کا رنگ چہرے پر بکھر جائے
کبھی مجھ سے ہی آکر تتلیاں میرا پتہ پوچھیں
کبھی اک مورنی میرے پروں پر خوب اِترائے
کبھی سورج کی کرنیں مانگ میں پھیلاکے کھوجائوں
کبھی کردوں فضا کو مضطرب وہ آگ برسائے
کبھی اُبھرے فصیلِ زندگی پر بن کے سورج وہ
کبھی نغمہؔ شبِ تاریک میں مہتاب بن جائے
********************************** |