* سفر اور بھی ہے نظاروں سے آگے *
سفر اور بھی ہے نظاروں سے آگے
زمینوں کی تہہ تک ، ستاروں سے آگے
یقین اپنی رفتار پر کر کے دیکھو
ہمیشہ رہوگے قطاروں سے آگے
کسی نے تو شعلوں پہ ڈالی ہے مٹی
دھواں ہی دھواں ہے شراروں سے آگے
نہ جانے کہاں پر قیامت کھڑی ہو
کہاں سوجھتا ہے اشاروں سے آگے
وہ آغوش جو آسماں کی طرح تھی
مجھے لے گئی چاند تاروں سے آگے
یہ رفتار بخشی ہے مجھ کو خدا نے
میں پیدل ہوں لیکن ، سواروں سے آگے
ابھی اِبتدائے سفر ہے یہ نغمہؔ
ابھی تو ہے جانا ہزاروں سے آگے
*************************** |