* زیست کو درد کے پھولوں سے سجایا میں *
زیست کو درد کے پھولوں سے سجایا میں نے
خون کا رشتہ بہرحال نبھایا میں نے
یہ مری تیرہ شبی جان نہ لے لے میری
روشنی کے لئے دل کو بھی جلایا میں نے
میری صورت سے بھی ہیں اُن کی نگاہیں بدظن
جن کی تصویر کو سینے سے لگایا میں نے
کس سے منسوب ہے کیا جانے مری مایوسی
آپ کی ذات سے کب پردہ اٹھایا میں نے
ہاتھ جب اس نے مرا تھاما تو روٹھی دنیا
اک قیامت سے گزر کر اسے پایا میں نے
دل کی دہلیز پہ آہٹ تھی یہ کیسی نغمہؔ
جب کہ ہر روز کسی کو بھی نہ پایا میں نے
************************** |