* بتانے والی ہر اک بات ہم بتاتے ہیں *
بتانے والی ہر اک بات ہم بتاتے ہیں
بس ایک دردِ جگر ہے جسے چھپاتے ہیں
ہے خودسروں کے شکنجے میں اپنی ذات پھنسی
جو حق تو دیتے نہیں حق مگر جتاتے ہیں
کبھی نہ دیکھئے تحقیر سے کسی شے کو
چمن کو گل ہی نہیں خار بھی سجاتے ہیں
ہر ایک گام جنہیں حوصلہ دیا ہم نے
ہماری زندہ دلی وہ بھی آزماتے ہیں
زباں پہ کوندتی رہتی ہیں بجلیاں جن کی
خدا ہی جانے وہ کس کس کا دل جلاتے ہیں
ہوئے ہیں جب سے مرے اشک اُن سے وابستہ
کرشمہ دیکھو مرے غم بھی مسکراتے ہیں
نہ کوئی جھونپڑی جن کی تھی شہر میں کل تک
انہی کے نام پہ اب ہم سڑک بناتے ہیں
ہوئی ہے نغمہؔ محبت میں اِتنی رسوائی
کہ اپنے آپ سے بھی ہم نظر چراتے ہیں
*********************8 |