* نقش جو پانی پہ ٹھہرے ہیں مٹاکر دیک *
نقش جو پانی پہ ٹھہرے ہیں مٹاکر دیکھوں
اپنی آنکھوں کے سبھی خواب بہاکر دیکھوں
میں کبھی چھوکے تجھے دیکھوں تمنا ہے مری
اے فلک! اپنے پروں کو میں سجاکر دیکھوں
پھیل جائوں میں تری بزم میں خوشبو کی طرح
اور میں خود کو کبھی خود سے چھپاکر دیکھوں
اپنے سائے کو اجالوں کے حوالے کرکے
آئینہ تجھ سے کبھی آنکھ ملاکر دیکھوں
آنکھ تو اُن کے تصور سے چمک اٹھتی ہے
کس لئے آنکھوں میں کاجل میں لگاکر دیکھوں
اپنی تنہائی سے کچھ بات کروں کھو جائوں
اک ذرا خواب کے صحرائوں پہ چھاکر دیکھوں
اے خدا کوئی نہ سمجھے مرے چہرے کی کتاب
نغمۂؔ غم کا ہر اک باب مٹاکر دیکھوں
*********************** |