* وقت کے آگے چلی ایک نہ تدبیر مری *
وقت کے آگے چلی ایک نہ تدبیر مری
سامنے آ ہی گئی شومیٔ تقدیر مری
تازیانے سے مرا جسم کھرچنے والے
کاش تم دیکھتے ٹوٹی ہوئی زنجیر مری
جس قدر زخم مرے دل کو جنوں نے بخشا
سرخرو ہوتی گئی شوخیٔ تحریر مری
آپ کی بزم میں کچھ دیر ہی ٹھہروں گی مگر
میرا دعویٰ ہے کہ چھا جائے گی تاثیر مری
جیب میں تیری سدا دل کے قریں رہتی ہے
میری تقدیر سے بہتر تو ہے تصویر مری
قصۂ درد کی شہرت سے ہوں خائف نغمہؔ
اُن کی بدنامی کا باعث نہ ہو تشہیر مری
********************* |