* موتیوں سے جڑی پتیاں رہ گئیں *
موتیوں سے جڑی پتیاں رہ گئیں
پھول مرجھا گئے تتلیاں رہ گئیں
تشنگی قربتوں کی نہ باقی رہے
لاکھ چاہا مگر دوریاں رہ گئیں
وقت نے ماں کی آغوش تو چھین لی
کان میں گونجتی لوریاں رہ گئیں
دل سے کب جا سکی دل کی معصومیت
میرا بچپن گیا شوخیاں رہ گئیں
لوگ عہدوں کی خاطر تو مرمٹ گئے
منہ چڑاتی ہوئی کرسیاں رہ گئیں
ہاتھ سے ہاتھ اُس کا پھسلتا گیا
اور میری بندھی مُٹھیاں رہ گئیں
مفلسی میں دھواں بن گئے کچھ بدن
راہ تکتی ہوئی ڈولیاں رہ گئیں
سنگِ غم نے کیا چور نغمہؔ مجھے
دل میں چبھتی ہوئی کرچیاں رہ گئیں
*********************** |