* مجھے زندگی کی صدا کہہ رہے ہو *
مجھے زندگی کی صدا کہہ رہے ہو
بہاروں کی شاید نوا کہہ رہے ہو
مرا دل دھڑکتا ہے آنکھوں میں میری
ہے چہرہ میرا آئینہ کہہ رہے ہو
ابھی تک بہاریں مجھے ڈھونڈتی ہیں
ابھی تک ہے رستہ سجا کہہ رہے ہو
ابھی تک میری خامشی کی صدائیں
ہیں بکھری ہوئی جا بجا کہہ رہے ہو
کبھی یاد آئیں گی میری وفائیں
ابھی تو انھیں تم بُرا کہہ رہے ہو
یہ جو ہر طرف بے حسی چھا رہی ہے
زمانے کی اس کو ہوا کہہ رہے ہو
مجھے اپنے ہاتھوں سے خود قتل کر کے
میری موت کو سانحہ کہہ رہے ہو؟
ابھی زندگی کے بڑے امتحاں ہیں
ابھی سے اِسے تم سزا کہہ رہے ہو؟
چبھن یاد کی ہے یہ میری جسے تم
’’ہے کچھ آنکھ میں پڑ گیا‘‘ کہہ رہے ہو
تیری قربتوں میں جو دن تھے گزارے
اُنہیں تم بدن کا نشہ کہہ رہے ہو؟
جو بے چین رکھتا ہے ناہید مجھ کو
وہ ہے ہجر کا سلسلہ کہہ رہے ہو
****** |