نجیب احمد نجیب
غزل
اک امتحان ہے یارو یہ زندگی کا سفر
اس امتحان سے ہرگز نہیں کسی کو مفر
تو اپنی دھن میں مگن یونہی جان و دل سے گزر
یقین ہے کہ سنے مژدہ طلوع سحر
ملےگا تم کو یقیناً سوال سے بڑھ کر
جو آے دینے پہ دیتا ہے پھاڑ کر چھپر
بلندیوں پہ پہنچنا تو خوب ہے لیکن
مزہ تو جب ہے کہ دم بھر بلندیوں پہ ٹھر
تمہارے نام کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں
زمیں پہ لعل و زمرد، فلک پہ شمس و قمر
نظر ہے اپنی عقابی نظر جنابِ نجیب
زمیں پہ رہتے ہیں رکھتے ہیں آسماں کی خبر
*********************