غزل
غمِ حیات جو نغموں کا زیر و بم ہے میاں
انہی کی دین ہے ان کا بڑا کرم ہے میاں
سمندروں کی سیاہی مرا وفورِسُخن
یہ کایٔنات ہے قرطاس، یہ قلم ہے میاں
میں اک نظر میں جہاں بھر کی سیر کرتا ہوں
مرے لیٔے تو کھلونا یہ جامِ جم ہے میاں
متاعِ دل تری جھولی میں ڈال دی میں نے
ذرا سنبھال کے آپس کا یہ بھرم ہے میاں
کسی مقام پہ تھکنے کا اب سوال نہیں
جوان عزم ہے اور بازوؤں میں دم ہے میاں
ہمارے شہر کی رسمیں عجیب رسمیں ہیں
ستم کرم ہے یہاں اور کرم ستم ہے میاں
زمیں پہ لعل و زمرد، فلک پہ شمس و قمر
مقام آپ کا ان سب میں محترم ہے میاں
ہنسیں تو ساتھ بہاریں بھی مسکراتی ہیں
وہ غمزدہ ہے تو شبنم کی آنکھ نم ہے میاں
اسے تو رُوپ کی رانی سلام کرتی ہے
وہ آگے سارے زمانے سے دو قدم ہے میاں
چلے تو شمس و قمر ساتھ ساتھ چلتے ہیں
یہ سن کے کہکشاں خاموش ایکدم ہے میاں
اسی کے دم سے فروزاں ہے کایٔنات نجیبؔ
اسی کے دم سے مرا غم بھی محترم ہے میاں
*****************