* نقطۂ درد ، غمِ زیر و زبر سے نکلوں *
غزل
نقطۂ درد ، غمِ زیر و زبر سے نکلوں
شکل بن جائے تو لفظوں کے سفر سے نکلوں
کوئی خلوت مری تقدیر میں لکھی ہی نہیں
میرا کردار پکارے ہے جدھر سے نکلوں
برف کی طرح سے جم جائوں کبھی ذہنوں میں
کبھی شعلوں کی طرح موجِ شرر سے نکلوں
راستہ پھیل رہا ہے کوئی منزل ہی نہیں
سوچتا ہوں کہ میں احساسِ سفر سے نکلوں
رات آنگن میں کھڑی سوچ رہی ہے کب سے
صبح کی پہلی کرن نکلے تو در سے نکلوں
میرے کمرے میں مقید ہیں ہزاروں صدیاں
سارے دروازے مقفل ہیں کدھر سے نکلوں
سوزشِ فکر سے جلنے لگے احساس کے تن
یار ، نم اعظمی نکلوں تو کدھر سے نکلوں
نم اعظمی
13, Sanp Gachhi, 1st Lane, Topsia
Kolkata-700039
Mob: 9831578898
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|