* خشک آنکھوں میں سمندر مت رکھ *
غزل
خشک آنکھوں میں سمندر مت رکھ
ڈوبتے گائوں کا منظر مت رکھ
پھر فسادات کی گہری سازش
پُر سکوں شہر کے اندر مت رکھ
حادثے اور بھی گزریں گے ابھی
فہم و ادراک کو ششدر مت رکھ
تتلیاں رقص میں ہوں گی زخمی
شاخِ گل پر کوئی خنجر مت رکھ
مجھ کو ہر حال میں سچ کہنا ہے
میری گفتار پہ پتھر مت رکھ
یہ یقیں تک نہ پہنچنے دے گا
دل میں اوہام کا لشکر مت رکھ
جس سے احساس کی آنکھیں شل ہوں
رشتہ اُس خواب سے اکبر مت رکھ
نقیب اکبر
25, Raushan Gulzar Lane, Tikia Para
Howrah-711101
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|