* نہیں کہ تنہا دلِ رائیگاں نے کھینچ *
نہیں کہ تنہا دلِ رائیگاں نے کھینچا ہے
ملالِ شب تو یہاں اک جہاں نے کھینچا ہے
یہ سانحہ بھی بڑے سانحوں میں شامل کر،
مجھے زمیں کی طرف آسماں نے کھینچا ہے
کبھی ہم اس کو کبھی خود کو دستیاب نہ تھے
یہ دُہرا رنج دلِ نا تواں نے کھینچا ہے
بہارِ غم کو چمن میں قرار ہے، کہ بہت
شجر شجر اسے دورِ خزاں نے کھینچا ہے
یونہی نہیں ہوا ہے آئنے کو زعمِ جمال
ترا خیال کسی خوش گماں نے کھینچا ہے
|