* ہوائے گل تجھے اس کی خبر بھی ہے کہ نہ *
ہوائے گل تجھے اس کی خبر بھی ہے کہ نہیں
یہ باغ تیرے لیے بارور بھی ہے کہ نہیں
جو ہم سفر ہوا میرا وہ میرے ساتھ بھی ہے؟
میں جس سفر پہ چلی ہوں، سفر بھی ہے کہ نہیں؟
بس ایک چھت ہی تو کافی نہیں مکاں میں، یہ دیکھ
ہوا کی سمت کھلا کوئی در بھی ہے کہ نہیں
قفس سے کرتی رہی تھی کبھی نظارہء باغ
یہ لطف آنکھ کو بارِ دگر بھی ہے کہ نہیں
ذرا یہ نام کی تختی تو پڑھ کے مجھ کو بتا
جہاں میں رہتی ہوں وہ میرا گھر بھی ہے کہ نہیں
|