* شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے *
شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے
شور جو دل کی گلی میں کسی زنجیر کا ہے
اس کو قدرت سے طلب کرنا بڑی بات نہیں
مسئلہ ٹوٹے ہوئے اک خطِ تقدیر کا ہے
تتلیاں میری بیاضوں کے ورق چومتی ہیں
تم سے وابستہ کوئی حرف تو تحریر کا ہے
وقت کی گرد میں دب جائے گا رفتہ رفتہ
یوں تو روغن ابھی تازہ تری تصویر کا ہے
وہ محبت میں نہیں *رکھتا کوئی اپنی مثال
سارا جھگڑا تو مری ذات کی توقیر کا ہے
زندگی تجھ سے تعلق ہی مجھے ہے کتنا
یہ تو گلیوں سے گزرنا کسی رہگیر کا ہے
ٹھہر چہرے سے اترنے دے ذرا گردِ ملال
حوصلہ جی کو نئے شہر کی تعمیر کا ہے
|