* زمین بانٹ چکے آسمان بانٹیں گے *
زمین بانٹ چکے آسمان بانٹیں گے
ہوا چلے تو سہی ہم اڑان بانٹیں گے
جو بانٹتے رہے دکھ سکھ کئی زمانوں تک
خدا نکردہ اب اپنا مکان بانٹیں گے
طلب نہیں کسی منزل کی، پر یقیں رکھو
تمھارے ساتھ سفر کی تکان بانٹیں گے
تمام سرو سمن ارغواں حصار میں* ہوں
خزاں میں بادِ صبا کا گمان بانٹیں گے
بکھرا پھول کی تقدیر ہی سہی، لیکن
ہوا کے جھونکے تمہارا دھیان بانٹیں گے
محبتوں میں جنوں کا عجب تقاضا ہے
وہ دھوپ بانٹے گا، ہم سائبان بانٹیں گے
|