* بنا رہی ہے نہ مجھ کو مٹا رہی ہے ہوا *
بنا رہی ہے نہ مجھ کو مٹا رہی ہے ہوا
میں* خاک ہوں مجھے در در اڑا رہی ہے ہوا
کسے تھی یاد وہ تفصیلِ رائیگانیءِ عمر
غبار آئینے سے کیوں ہٹا رہی ہے ہوا
یہ آگ وہ نہیں ہے جو بجھائے بجھ جائے
دیئے کی لو سے ہتھیلی جلا رہی ہے ہوا
کہاں ٹھکانہ کریں گے یہ خوشبوؤں کے پرند
فلک سے آخری خیمہ اٹھا رہی ہے ہوا
معاف کرے رہے ہم ہر اک چراغ کا قتل
مگر یہ کیا کہ دریچہ بجھا رہی ہے ہوا
|