* ساحل کے نظارے سے سمندر نہیں کھلتا *
ساحل کے نظارے سے سمندر نہیں کھلتا
آنکھوں سے کبھی روح کا منظر نہیں کھلتا
کھل جاتے ہیں* کچھ لوگ ذرا دیر میں، لیکن
پرکھو جسے اک عمر، وہ اکثر نہیں کھلتا
آسیب کوئی پھیلا ہوا ہے کہ سرِ شام
اس شہر میں دستک پہ کوئی در نہیں کھلتا
سیلن کی نمی چاٹ رہی ہے در و دیوار
اس گھر کا دریچہ کوئی باہر نہیں کھلتا
ہے تنگیءِ دامان ِ نظر یا ہے یہ ممکن
اندر کے کسی خوف سے جوہر نہیں* کھلتا
اک روشنی آنچل سے ترے چھنتی رہی ہے
ہے کون سا منظر، پس ِ منظر، نہیں کھلتا
|