* سانس لے پائیں بس اتنی سی ہوا چاہتے *
غزل
سانس لے پائیں بس اتنی سی ہوا چاہتے ہیں
بیعتِ زیست کے پابند جیا چاہتے ہیں
گردشِ پا کو بھی حیرت ہے کہ ہم زادۂ خاک
وہ جو اک گنبدِ بے در ہے کھلا چاہتے ہیں
دستکیں دینے لگی بادِ بہاری پھر سے
ہم تو سمجھے تھے کہ اب زخم بھرا چاہتے ہیں
اک تغافل کا تعلق تھا پرانا ہم سے
دست بردار وہ اس سے بھی ہوا چاہتے ہیں
کیسے یہ شوق کریں ہم کہ کھلے بند نقاب
وہ تو تصویر میں بھی ہم سے چھپا چاہتے ہیں
اُن کی آنکھوں میں کہاں خواب اُترنے والے
پچھلے سپنوں میں سمٹ کر جو رہا چاہتے ہیں
سرپھرے ہم سے کہاں شہر میں ملنے والے
شعر کہتے ہیں ستائش نہ صلہ چاہتے ہیں
پروفیسر) نصر غزالی)
17/1, Bedford Lane
Kolkata-700016
Ph: (033)22171733
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|